چنار کہانی
(صغیر قمرامور کشمیر کے ماہر، مختلف رسائل کے مدیر،مصنف اور شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں.ان کا یہ کالم روزنامہ خبریں کے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے)
یہ افغانستان ہے اور فروری 1984ءکی ایک سرد ترین شام۔آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر برف کے گالے اڑ رہے تھے ‘ہوائیں درختوں سے ٹکراتی اور چنگاڑتی ہڈیوں کے گودے تک پہنچ رہی تھیں۔محاذ جنگ پر قدرے اداسی چھا ئی ہوئی تھی۔ روسی فوجوں سے ایک خوف ناک معرکے کے بعد مجاہدین کے ہر دل عزیز استاد اور گردیز کے کمانڈر بلال جام شہادت نوش کر چکے تھے۔ زازی(جاجی) کے مورچوں میں بے کل نوجوان آج کمبلوں میں دبکے ہوئے تھے ‘ کوئی کسی سے بات کرنے کے موڈ میں نہ تھا۔ معاً باہر شور بلند ہوا‘ اﷲ اکبر کی صدا کے ساتھ ہوائی فائرنگ بھی شروع ہو گئی۔کمبلوں میں دبکے‘ سردی سے ٹھٹھرے نوجوان لپکے۔ باہر منظر ہی دوسرا تھا۔ مجاہدین دو روسیوںکو زندہ پکڑ لائے تھے۔وہ مجاہدین کی گرفت میں تھے ‘ان کے سہمے ہوئے چہرے پیلے پڑ چکے تھے اور آنکھیں جھپکنا بھول گئی تھیں۔
موت کی آواز انہیں صاف سنائی دے رہی تھی۔ مجاہدین کی گنیں بیک وقت کاک ہوئیں لیکن کمانڈر کے اشارے سے ان کی نالیاں جھک گئیں۔ اس نے کہا کوئی بھی گولی نہیں چلائے گا۔ یہ ہماری قیدمیں ہیں اور جب تک یہ لڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے ان کے لیے امان ہے۔ اگلی صبح دھوپ نکلی تو لوگ کمبل اٹھا کر باہر آ بیٹھے۔کچھ ہی دیر بعد دونوں روسی قیدی زنجیر سے بندھے ایک ٹیکری پر آ گئے۔رات کی نسبت اس وقت روسی قیدیوں کے مرجھائے ہوئے چہروں پر قدرے سکون در آیا تھا اور باتوں میں اعتماد۔مجاہدین کی خوشی بڑھ گئی جب انہیں معلوم ہوا کہ ایک قیدی روسی اخبار ” پروادا“ کا چیف رپورٹر گریما کوف اور دوسرا” دی سن “ کا ڈپٹی ایڈیٹر ہے۔ ماحول دوستانہ ہوا تو گپ شپ کا آغاز ہوگیا۔ گریما کوف کہہ رہا تھا ”کریملن میں دانشوروں نے پیشن گوئی کی ہے کہ سوویت یونین افغانستان کو روندتا ہوا آئندہ پانچ برسوں تک گرم پانیوں تک پہنچ جائے گا۔اس کے بعددنیاکی شہ رگ روس کے قبضے میں ہوگی۔“
گریما کوف کا تجزیہ بھی اس سے مختلف نہ تھا۔ اس کا کہنا تھا :” افغانی اگرچہ جنگجو ہیں اور دست بدست لڑائی کے خوگر بھی ‘لیکن اب زمانہ بدل چکا ہے۔توڑے دار بندوقیں اور خنجر بھالے سے بات آگے بڑھ چکی ہے۔ سوویت یونین کی حکمرانی ہواﺅں پر ہے۔اگر وہ چاہے تو افغانستان کی نسلیں مٹا ڈالے لیکن روسی جرنیلوں کی حکمت عملی اس سے مختلف ہے۔ وہ افغانوں کے دلوںپر قابض ہونا چاہتے ہیں اس لیے فی الوقت نرم پالیسی کے ذریعے افغانوں کو قائل کیا جا رہا ہے۔“گریما کوف کہتا جا رہا تھا اور میںسوچ رہا تھا۔یہ کیسی نرم پالیسی ہے؟تب تک روس تیرہ لاکھ افغانوں کی قربانی لے چکا تھا ‘ بستیاں تباہ کھیت کھلیان اجاڑ چکا تھا۔ روسی قریہ افغانستان کے طول وعرض میں بارود کی بارش برسا چکے تھے ‘ فضاﺅں سے نیپام بموں کی آگ اتار چکے تھے ‘بچے سنگینوں پر پرو کر ماﺅں کی گودوں میں ڈال چکے تھے۔ کابل ‘ قندہار ‘ جلال آباد اور گردیز کی جیلوں میں کتنے ہی جوانوںکو موت کی آغوش میں سلا چکے تھے اور…. گریما کوف پھر بھی اسے ”نرم پالیسی“ سے تعبیر کرتا ہے۔حیف ہے تم پر گریما کوف! میںنے دل ہی دل میں اس بے حمیت روسی صحافی کی ملامت کی۔تب مجھے پاکستانی صحافت کے ماتھے کا جھومر اور امور افغانستان کا ماہر مختار حسن یاد آیا۔1980ءمیں جسے گریما کوف کے آقا اس جرم میں پکڑ کر لے گئے تھے کہ اس نے اپنے فرض کی ادائیگی کو حرز جاں بنا لیا تھا۔ اسے پل چرخی جیل کی بند سلاخوں کے اس پار ڈال دیا گیا۔ مختار حسن نے اپنی آنکھوں سے پل چرخی کے حقائق دیکھے۔تب گریما کوف سے کون پوچھتا کہ کیا یہی ” نرمی“ کہلاتی ہے۔ایک طرف گریما کوف سدھائے ہوئے گھوڑے کی طرح بک بک کرتا جا رہا تھا اور دوسری طرف مترجم افغان مجاہدین کے غصے میں اضافہ کرتا چلا جا رہا تھا کہ وہ من و عن ترجمہ کر رہا تھا۔ گریما کوف اور اس کے ساتھی اعتماد حاصل کر چکے تھے۔لہٰذا اب وہ ہر قسم کے خوف سے عاری تھے۔
دونوں روسی دانشور اپنی بات پر اڑے ہوئے تھے۔ایک نے کہا ”سوویت یونین ایک حقیقت ہے جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ اس کی اپنی تاریخ ہے۔جہاں جاتا ہے واپس نہیں آتا۔آگے بڑھتا ہے اور بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ نئی صدی کے آغاز سے قبل سوویت یونین آدھی دنیا فتح کر لے گا۔ یہ ہمارے دانشوروں کی پیشن گوئی ہے جسے بہرحال سچ ہونا ہے۔“تب مجھے ایک افغان بابا جی یاد آئے‘ جنہوں نے کہا تھا ”روس کی اپنی تاریخ ہے لیکن اسے خبر نہیں کہ افغانوں کی بھی ایک تاریخ ہے۔ برطانیہ اور افغانستان کی تین جنگیں اس پر گواہ ہیں اور آخری جنگ سے تو صرف ایک ”کن کٹا“ ڈاکٹر ہی عبرت کا نشان بن کر واپس گیا تھا۔ افغان پانچ نسلی گروہوں( کرد ‘ بلوچ ‘بروہی ‘پشتون اور ترک ) میں سے ہیں ‘ جنہوں نے ایک ہی وقت میں سو فیصدآبادی کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا اور اسلام ان کی زندگی کا وطیرہ بن کر ان کے روزوشب میں رچ بس گیا ہے ‘ روس یہ سوچ کر کریملن سے نکلتاتو شاید عافیت پاتا۔ اب آ چکا ہے تو جائے گا ہماری مرضی سے۔“
اﷲ انسانوں کے غرور تو خاک میں ملاتا ہی ہے ‘مگر ملکوں اور قوموں کے غرور جس طرح ملیا میٹ کرتاہے ‘ کم کم انسان اس پر غور کرتے ہیں۔ ایسی مملکتیں جن پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا خود غروب ہو گئیں۔گریما کوف زازی سے کہاں گیا؟مجھے خبر نہیں ‘ ایک بات تو طے تھی کہ اسے مجاہدین نے موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا تھا۔وہ یقینا افغانوں کی تباہی اورسوویت یونین کے انجام کو دیکھ کر ہی مرا ہو گا۔لیکن اگر زندہ ہے تو پھر آج کے تازہ مناظر ملاحظہ کرے۔ کاش !میں آج اسے تلاش کرسکوں تواسے یاد دلاﺅں ‘ اسے دکھاﺅں کہ میرے روسی دانشور ‘تمہارا اخبار تمہاری داستان سفر چھاپتا رہا اور کہتا رہا افغانستان زیر تسلط آئے گا ‘گرم پانیوں تک روس رسائی پائے گا اور نئی صدی کے آغاز تک آدھی دنیا پر حکمران ہوگا۔میرے دوست تمہارے ساتھ کیا ہوا؟نئی صدی آ چکی اور افغانستان میںنئے لشکر بھی اتر آئے لیکن تمہاری خواہش پوری نہ ہوئی۔
1992ءکی فروری کی16 تاریخ تھی۔روسی اپنا بوریا بستر لپیٹ کر بصد حسرت و یاس بصورت بدو گھروں کو لوٹ گئے۔ دریائے آمو کے اس پار آدھا لشکر پلٹ کر اپنی ” مادر وطن ‘ پر قدم رکھ چکا تھا کہ دریا کے پل پر پہنچ کر شکست کے زخموں سے چور روسی فوج کاجرنیل گروموف گاڑی سے اتر گیا۔ اس نے افغانستان کی طرف منہ کر کے کہا ”میں آئندہ نسلوں کو بھی منع کر جاﺅں گا کوئی افغانستان پر حملہ نہ کرے۔جن کے خمیر میں اسلام ہوانہیں کوئی کچل نہیں سکتا۔“اس کے بعد سوویت یونین کے حصے بخرے ہو گئے۔ مختار حسن مرحوم کی پیشن گوئی کے عین مطابق ‘ جس نے کہا تھا ”سوویت یونین کی حیثیت بند مٹھی میں ریت کی طرح ہے جو لمحہ لمحہ بکھرتی چلی جاتی ہے۔“آج انسانی خدائی کا علم بردار امریکا بھی نشے کی اسی کیفیت سے دوچار ہے۔ وہی سرمستی اور مدہوشی ہے۔ ”عظمت کے میناروں “اور ”طاقت کے مراکز“ کی تباہی نے انہیں بھی افغانستان اور عراق کا راستہ دکھایا تھا۔وہ ”بموں کی ماں“ اور بی 52 طیاروں سے اسلامیوں کے دلوں سے اسلام کی محبت کھرچ کر بغداد اور کابل پر اپنا پرچم لہرانا چاہتا تھا۔ ان کی نظریں اسلام اور آزادی کا نام لینے والوں پر جمی ہیں۔مسلمانوںکے وسائل کو ہڑپ کر کے وہ دنیا میں اپنی طاقت ثابت کرنا چاہتے تھے۔ بے وسیلہ ملکوںکوملیا میٹ کرنے کے ارادے کا کیا کیا جائے ؟ جب کہ یہ بات بھی محل نظر ہے کہ اس میں خود لڑنے کی کتنی سکت باقی ہے۔امریکی پاکستان کو اس جنگ میںاپنا شریک کار بنا کر خوار کرنا چاہتا تھا۔۔وہ اس غیر اخلاقی جنگ میں دوستی کا خواب دکھا کر کیسی پینگیں بڑھاتا رہا اور آخر کار پاکستان کی تمام قربانیوں کو نظر انداز کر کے آنکھیں دکھانے لگا۔امریکی حکمران نہیں جانتے کہ وہ اب عین اس جگہ کھڑے ہیں جہاں پچیس سال پہلے سوویت یونین کھڑا تھا۔عین گرنے کی جگہ۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ہمارے اندازے درست ہیں یا غلط،فطرت کے اصول ہمیشہ ایک سے رہتے ہیں۔فطرت امریکیوں کےلئے بروئے کار آچکی۔
اے میرے امریکی دانشورو!روس کے جرنیل گروموف سے مشورہ کرو۔”پروادا“ کے گریما کوف کو آواز دو ‘ اسے پکارو شاید وہ تمہاری کچھ مدد کر سکیں اور تمہیں سمجھا سکیںکہ دنیا میں محض عسکری برتری ہی طاقت نہیں ہوتی بلکہ حکمت و دانائی اور برداشت بھی ایک قوت ہے جو دیوار کے اس پار دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ تم تو اپنی نسلوں کی بہتری کے لیے لشکر لے کر نکلے تھے لیکن یہاں تو تمہاری نسل مٹنے کا خطرہ آدھمکا ہے۔تمہارے ڈیزی کٹر ”بموں کی ماں “ ڈرٹی بم بلکہ ایٹم بم دلوں سے ایمان اور روحوں سے آزادی کی تمنا مٹا تو نہیں سکتے۔