احتساب عدالت نے 16 سال بعد آصف زرداری کو اثاثہ جات کیس میں بری کر دیا

راولپنڈی کی احتساب عدالت نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری کو 16 سال بعد غیرقانونی اثاثہ جات ریفرنس کیس میں بری کردیا۔ زرداری پر غیرقانونی اثاثے بنانے کا الزام تھا جس کا ریفرنس سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور حکومت میں احتساب عدالت میں دائر کیا گیا تھا۔ سابق صدر کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بریت کی درخواست دائر کی تھی۔ راولپنڈی کی احتساب عدالت نمبر 1 کے جج خالد محمود رانجھا نے آصف زرداری کی بریت کی درخواست منظور کی۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ نیب نے جو ریفرنس دائر کیا اسکی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ پانامہ پیپرز کیس کے فیصلے کے بعد زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بھی اپنی حاضری کو یقینی بنایا اور احتساب عدالت نے نیب کے ساتھ مشاورت کرتے ہوئے روزانہ کی بنیاد پر سابق صدر کے خلاف ریفرنس کی سماعت کا فیصلہ کیا۔ ذرائع کے مطابق احتساب عدالت کو سابق صدر کی بریت کا فیصلہ انکے خلاف ٹھوس ثبوت موجود نہ ہونے پر کرنا پڑا۔احتساب عدالت کے جج نے ریمارکس میں کہا کہ اس کیس میں نیب کوئی شہادت پیش نہیں کرسکا، ریفرنس فوٹو سٹیٹ نقول پر مشتمل ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔مشرف دور کا اثاثہ جات ریفرنس این آر اوکے تحت بند ہوا، سپریم کورٹ کے حکم پر کھلا
آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کے خلاف یہ ریفرنس 2001 میں احتساب عدالت میں دائر کیا گیا تھا جو بعدازاں اس وقت کے صدر مشرف کی جانب سے جاری کردہ این آر کے تحت 2007 میں بند کردیا گیا۔ دسمبر 2009 میں سپریم کورٹ نے این آر او کو کالعدم قرار دے دیا اور اس آرڈیننس کے تحت بند کئے جانے والے تمام کیسز کو دوبارہ کھولنے کا حکم دیا۔ زرداری اس وقت صدر پاکستان کے عہدے پر فائز تھے جس کی وجہ سے انہیں آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل تھا۔ نیب نے چیئرمین آصف زرداری کے خلاف ریفرنس کو اپریل 2015 میں دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد سے اس ریفرنس پر کارروائی سست روی کا شکار تھی۔ رواں برس کوئی پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی ۔ زرداری کے وکیل بیماری کی وجہ سے کیس کی پیروی کرنے سے قاصر تھے۔ رواں سال کے آغاز میں یہ بات سامنے آئی کہ کرپشن ریفرنس کا ایک اہم گواہ پراسرار طور پر غائب ہوگیا تھا۔ بعدازاں بیرسٹر جواد مرزا نامی گواہ کو راولپنڈی احتساب عدالت سے اشتہاری ملزم قرار دے دیا گیا تھا۔ تاہم عہدے کی مدت پوری کرنے کے بعد احتساب عدالت میں ان کیسز کے حوالے سے کارروائی ہوئی، جن میں سے 5 کیسز میں انہیں پہلے ہی بری کیا جاچکا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں