معروف شاعر اختر شیرانی نے کہا تھا
عشق و آزادی بہارِ زیست کا سامان ہے
عشق میری زندگی ، آزادی میرا ایمان ہے
عشق پر کردوں فدا میں اپنی ساری زندگی
لیکن آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ آزادی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ برصغیر پر انگریزوں کی حکومت کی گواہی دینے والی نسل کے کچھ لوگ ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ انٹرنیٹ پر ہمہ وقت مصروف ہماری نئی نسل کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ کسی ایسے شخص کے پاس بیٹھیں جو انہیں یہ بتا سکے کہ پاکستان کی آزادی سے پہلے برصغیر کے مسلمانوں کے حالات کیا تھے، کس طرح ان کے ساتھ چھٹے یا ساتویں درجے کے شہریوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا تھا، یہ درجہ بندی میرا خیال نہیں بلکہ اظہر من الشمس ہے کہ درجہ اول پرانگریز خود آتے تھے اور اس کے بعد ہندوئوں کی چار ذاتیں تھیں ان کے بعد مسلمانوں کا درجہ آتا تھا، بلکہ بعض جگہوں پر تو ان درجات کے درمیان والی جگہ دوسری کئی اقلیتیں لے لیتی تھیں۔ ہندو پانی، مسلم پانی کی تقسیم ہر جگہ ملتی تھی ، کھانے پینے والی کسی چیز کو مسلمان نے چھو لیا تو ہندوئوں کیلئے وہ چیز نجس ٹھہرتی تھی۔بازار ہو یا دربار، کاروبار ہو یا سرکاری نوکری ہر جگہ مسلمانوں کی تحقیر ایک معمول بن چکا تھا۔ غرضیکہ مسلمانوں کی تضحیک کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا تھا۔ مسلمان عورتوں کی سکھوں اور ہندوئوں سے زبردستی شادیاں کروائی جاتی تھیں اور ان خاندانوں کو کہیں لب کشائی کی اجازت بھی نہ تھی۔ ٹارگٹ یہ تھا کہ مسلمان قوم رفتہ رفتہ اپنی شناخت کو بھولتی جائے اور ایک ملک ایک قوم کا خوشنما چارہ دے کر اعلیٰ مذہبی اقدار اور ثقافتی روایات کے حامل مسلمانوں کو ایک جاتی کے طور پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہندوئوں میں ضم کر دیا جائے اور شاید ایسا ہو بھی جاتا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ایسے میں اگر کہیں اسلام کی رمق باقی تھی تو وہ مسلمانوں کی روحانی تشنگی کو بجھانے والی درگاہیں تھیں۔برصغیر میں اسلام کی ترویج و اشاعت کے اعزاز سے سرفراز ہونے والے مشائخکے وارثان اس سارے عمل سے بالکل بھی بے خبر نہیں تھے۔ انہوں نے نہ صرف مسلمانان ہند کو فکری تربیت کا بیڑہ اٹھایا بلکہ عملی جدوجہد کیلئے میدان عمل میں اترنا بھی سکھایا۔ بنارس سنی کانفرنس کے اعلامیہ کو پڑھ کر دیکھیں تو آزادی کے اصل ہیروز سے آگاہی ملتی ہے۔ مولانا نعیم الدین مرادآبادی سے لے کر پیرجماعت علی شاہ تک علماء و مشائخ کی ایک لمبی فہرست ہے جس نے قدم قدم تحریک آزادی کو مہمیز بخشی۔ مسلم لیگ اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی مخالفت کرنے والے چند کانگریسی ملائوں کے سارے حربے اس وقت ناکام ہو گئے جب انہیں مشائخ نے ہر طرح کی معاونت اور سرپرستی کا یقین دلایا۔ یہ بات کچھ تلخ تو ہو سکتی ہے لیکن تاریخی حقائق کے پیش نظر اس سے انکار ممکن نہیں کہ وہ تمام جماعتیں اور افراد جنہوں نے پاکستان کی مخالفت کی تھی، قیام پاکستان کے بعد اسی کے ٹھیکیدار بن بیٹھے اور آج تک کسی نہ کسی شکل میں اس میں اسلامی نظام کے نفاذ کا سبز باغ دکھانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ تحریک آزادی میں پاکستان کی مخالفت کے کریہہ عمل سے توبہ کئے بغیر کس منہ سے اس ملک کی تعمیر و ترقی کے دعوے کئے جارہے ہیں۔
ایک طرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کو آج تک دل سے تسلیم نہیں کیا اور حیلے بہانے سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والے گروہوں اور کالعدم تنظیموں کو سپورٹ کر رہے ہیں اور دوسری طرف وہ طبقہ کہ جن کے آباء نے جان ، مال، اولاد، وطن اور کاروبار کی قربانیاں دے یہ دیس حاصل کیا ۔ موخر الذکر طبقے کی اکثریت ملک کے قیام کو منزل سمجھ کر عشروں کے آرام کی عادی ہو گئی۔دردِ دل کے حامل معدودے چند لوگوں نے قیام کے بعد استحکام پاکستان کو ٹارگٹ بنایا اور اپنی جدوجہد شروع کر دی۔ خانقاہوں، درگاہوں اور آستانوں کے اکثر مکینوں نے لوگوں کو روحانی سکون دینے پر توجہ مرکوز کر لی اور اور قوم کے اجتماعی تشخص ، وقار اور آزادی کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جو یا تو انگریز کے کاسہ لیس رہے یا پھر مذہب کا لبادہ اوڑھ کر مدینہ ٔ ثانی کے قیام کی مخالفت کرتے رہے۔ ہر بار اگست کا مہینہ اپنی سبز بہاریں لے کر آتا اور گزر جاتا مگر مراکز روحانیت پر سبز چادروں میں سفید چاند ستارہ نہ لگا سکتے۔مگر اس سال پاکستانیوں نے عجیب منظر دیکھا۔ ضلع جھنگ کے دور دراز علاقہ گڑھ مہاراجہ میں قائم مرکز رشد و ہدایت دربار حضرت سخی سلطان باہوؒ سے ایکصدا بلند ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں کے دل کی آواز بن گئی۔ حضرت سخی سلطان باہوؒ کے لطف و فیض کے مالک، ان کے لخت جگر پیر سلطان فیاض الحسن سروری قادری نے 10اگست سے 20اگست تک عشرۂ آزادی منانے کا اعلان کر دیا۔انہوں اپنے تمام مراکز، مدارس، سکولز، یونیورسٹیز اور دفاتر میںعشرۂ آزادی کو منظم انداز میں منانے کا شیڈول جاری کیا اور عشرے کے دس دنوں کی بجائے گیارہ دن تک تقریبات کی خود نگرانی کی۔ ان کی تحریک پر گھر گھر میں کیک کاٹے گئے اور پاکستان کے پرچم لہرائے گئے۔ شہداء آزادی کے ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی کی گئی اور آزادی کی نعمت پر شکرانے کے نوافل ادا کئے گئے۔ علماء کرام کو آزادی کی اہمیت پر خطبہ جمعہ دینے کیلئے خطوط لکھے گئے ۔اداروں میں بچوں کے تقریری مقابلے کروائے گئے۔ مرکزی تقریبات دربار شریف حضرت سخی سلطان باہوؒ پر قائم عظیم تعلیمی مرکز مسجدِ حسین میں منعقد ہوئیں جہاں سلطان صاحب نے بنفس ِ نفیس شرکت کی۔ پرچم کشائی کی اور بچوں میں پاکستان پرچم، بیجز، جھنڈیوں کے ساتھ ساتھ مٹھائی بھی تقسیم کی۔
ایک ایسا معاشرہ جہاں عاملوں کو پیر سمجھ کر ان کے کرتوت مشائخ کے کھاتے میں ڈال دیئے جاتے ہوں، جہاں ذہنی مریض کو ولایت کے مرتبے پر ’’فائز‘‘کرکے ولایت کا مذاق اڑایا جاتا ہو۔ جہاں قاتلوں ، نوسربازوں اور زانیوں کو جعلی پیر کا نام دے کر پیروں کی رسوائی کا سامان معمول کی بات ہو ۔ ایسے میں ایک نامی گرامی درگاہ کے وارث کی طرف سے اس قدر منظم انداز میں جشن آزادی کی تقریبات کا انعقادنہ صرف پہلا بلکہ انتہائی مستحسن اور قابل تقلید عمل ہے۔
سلطان العارفین ؒ کی درگاہ سے اٹھنے والی یہ تحریک ہرگز اتفاقیہ نہیں ہے۔ اس سے نہ صرف ان کے معتقدین بلکہ تمام پاکستانیوں کیلئے خیر پھوٹنے کی خوشخبری ملتی ہے۔ یہ ایسا عمل ہے جسے خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کرنے کی طرف پہلاقدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سے ان تمام طبقات کی حوصلہ شکنی ہو گی جو پاکستان کو باپ کا مال سمجھ کر ہڑپ کرنے کے چکر میں ہیں۔ دور ہٹو اے دشمن ِ ملت ، پاکستان ہمارا ہے ، کے نعرے کو تقویت ملے گی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام آستانے ، مذہبی جماعتیں، مدارس اور دیگر دینی ادارے ایسے مواقع پر ایسی ہی تقریبات کا انعقاد کریں تو وہ وقت دور نہیں جب داڑھی والے کو دہشت گرد اور دھرتی کا دشمن نہیں بلکہ دھرتی کا محافظ تصور کیا جائے گا۔
Load/Hide Comments