اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد دھرنے کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے وزیر داخلہ کی غیر موجودگی پر برہمی کا اظہار کیا، اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ دھرنا قائدین سے رات بھر مذاکرات کی وجہ سے وزیر داخلہ سو نہیںپائے اور تھوڑی دیر میں حاضر ہو جائیں گے. عدالت نے وزیر داخلہ کو 15 منٹ میں عدالت میں حاضر ہونے کا حکم سنایا .جب وزیر داخلہ احسن اقبال عدالت میں پہنچے اور عدالت کو بتا یا کہ دھرنے کے قائدین سے معاہدہ ہو چکا ہے جلد ہی فیض آباد کو خالی کروا لیا جائے گا. جسٹس شوکت صدیقی نے ذو معنی انداز میں کہا کہ آپ جلد معاملہ حل کرنے کی امید دلا رہے ہیں آپ کی 9 ماہ کی امید ابھی تک پوری نہیںہوئی. انھوں نے معاہدے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسا معاہدہ ہے؟ دھرنے والوں نے عدلیہ کے خلاف نازیبا الفاظ کہے. کیا انھوںنے معافی مانگی؟ عدالت نے عسکری ذرائع کے توسط سے معاہدے پر سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ معاہدہ میجر فیض کی وساطت سے کیسے انجام پایا؟ عدالت نے کہا کہ ہم نے فیض آباد خالی کروانے کا حکم دیا تھا معاہدے کا نہیں. عدالت نے چیف کمشنر اسلام آباد کو معادے کا متن پڑھ کر سنانے کی ہدایت کی.عدالت کو معاہدے کا متن پڑھ کر سنایا گیا. وزیر داخلہ احسن اقبال نے عدالت کو بتایا کہ دھرنے والوں نے لکھ کر دیا ہے کہ وہ دھرنا ختم کر دیں گے.
عدالت نے سوال کیا کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ دھرنا ختم ہو جائے گا. احسن اقبال نے کہا کہ کچھ دیر بعد دھرنا قائدین پریس کانفرنس میں دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر یں گے.جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ عدلیہ سے معافی نہیں مانگی گئی ، دھرنا مظاہرین کون ہوتے ہیں جو دھرنے کے حوالے سے آرمی چیف کا شکریہ ادا کریں. انھوں نے کہا کہ فوج کو ثالث کی بجائے اپنا حقیقی کردار ادا کرنا چاہیئے.عدالت نے کہا کہ آرمی اپنی حدود میں رہے ،جن فوجیوں کو سیاست کا شوق ہے وہ فوج چھوڑیں سیاست میں آئیں. جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ اگر دھرنا جی ایچ کیو کے ساتھ ہوتا تو تو کون برداشت کرتا؟بعد ازاں انھوں نے دھرنا کیس کی سماعت پیر تک کے لیے ملتوی کر دی.
