چیچہ وطنی: چہلم کے موقع پر تاجروں سے ناروا سلوک…. تحریر: ارشد فاروق بٹ

چہلم کچھ تلخ یادوں کے ساتھ خیروعافیت سے گزر گیا ہے اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ جب بھی کوئی مذہبی تہوار آتا ہے بجائے اس کے کہ اس کو مذہبی عقیدت و احترام سے منایا جائے وہ دن خواری کا باعث بن جاتا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی حالات اتنے خطرناک ہیں کہ شہروں میں کرفیو کا سماں ہو؟ یا انتطامیہ کی روش بن گئی ہے کہ سکیورٹی کے نام پر لوگوں کو تنگ کیا جائے؟

انجمن تاجران چیچہ وطنی کے رہنماؤں محمد حارث دانش، راشد سعید بھلر، محمود بھلر، عابد مسعود ڈوگر ، عباس جٹ ، حا فظ بلال اور عبدالنعیم جٹ نے تاجروں کی شکایات پر انتظامیہ کی جانب سے بند کئے گئے مین بازار کو کھلوا دیا۔ تاجر رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ انتظامیہ نے امن کمیٹی کے اجلاس میں مین بازار کو بند کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ اور چونکہ مین بازار کو بند کرنے کا فیصلہ تاجروں کو اعتماد میں لے کر نہیں کیا گیا اس لیے تاجر برادری اس فیصلے کو مسترد کرتی ہے۔
تاجروں کی جانب سے مین بازار کو کھلوانے کے موقع پر اسسٹنٹ کمشنر عامر نذیر کھچی اور ڈی ایس پی امجد جاوید کمبوہ موقع پر پہنچ گئے اور کافی بحث و تکرار کے بعد مین بازار کو کھولنے کی اجازت دی۔ڈی ایس پی امجد جاوید کمبوہ کا کہنا تھا کہ انہیں اوپر سے احکامات ہیں کہ مین بازار کو بھی بند رکھنا ہے۔

محمد حارث دانش نے مزید کہا کہ انتظامیہ نے اس بار ایک اور زیادتی کی ہے ۔ چار بلاک گلی نمبر 2 میں دکان نما الماریاں بنی ہوئی ہیں جو 30 سال سے کبھی کسی مذہبی تہوار پر نہیں اتروائی گئیں۔ چہلم سے ایک رات قبل انتظامیہ نے وہ الماریاں زبردستی اتروائیں جس سے تاجروں کا خاصا نقصان ہوا اور اس پر تاجر برادری احتجاج کا ارادہ رکھتی ہے۔
راستے بند ہونے سے سکول جانے والےطلبا و طالبات کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ غلہ منڈی آنے والے زمیندار بھی انتظامیہ کو کوستے دکھائی دیے۔ جی ٹی روڈ بند ہونے سے غلہ منڈی، کچہری اور بینک سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ جبکہ ڈاکخانہ بازار جہاں بے پناہ رش ہوتاہے وہ بھی مفلوج ہو کے رہ جاتا ہے۔شہر والے پل کو بند کرنے سے اوکانوالہ روڈ کی ٹریفک درہم برہم ہو جاتی ہے۔لیکن انتظامیہ کو ایک ہی بات سے غرض ہوتی ہے کہ دن خیر خیریت سے گزر جائے۔جرمن میڈیا ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سڑکوں پر بڑھتے ہوئے جلوس اور عبادات کا تعلق مختلف طبقات فکر کے درمیان اثرورسوخ میں اضافے کی جنگ سے ہے۔

عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لئے ایسے موقعوں پرحکومت اور سکیورٹی اداروں کی جانب سے جو اقدامات کئے جاتے ہیں وہ بہت ہی مضحکہ خیز اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ موبائل فون سروس بند کرنے ، سڑکیں بند کرنے، تاجروں سے زبردستی دکانیں بند کرانے یا ڈبل سواری پر پابندی لگانے سے ایسے سانحات سے بچنا ممکن ہوتا تو گزشتہ عشرے میں کبھی کسی اجتماع پر کوئی حملہ نہ ہوتا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ریت کے ڈھیر میں سر دے کر کہا جائے کہ اب ہم محفوظ ہیں کیونکہ کچھ نظر نہیں آ رہا۔ حکومت اورسکیورٹی اداروں میں اگر استعداد کی کمی ہے تو پرامن ممالک سے سکیورٹی کا کوئی نظام مستعار لے لیا جائے۔

اپنے فرائض سے چشم پوشی اور عوام پر اس کا نزلہ گرانا کوئی عقلمندانہ فعل نہیں۔ ملک میں امن و امان کی فضا بحال کرنا کچھ مشکل نہیں۔ بہت سے ممالک پاکستان سے ٹیکنالوجی کے میدان میں کہیں پیچھے ہیں لیکن پھر بھی ان ممالک میں سکیورٹی کی صورتحال تسلی بخش ہے۔ سعودی عرب ، ترکی، متحدہ عرب امارات، قطر اور کویت سمیت بہت سے ممالک میں سکیورٹی کے معاملات قابل تعریف ہیں۔ پاکستان میں یہ صورتحال بہت افسوسناک ہے۔کوئی شریف آدمی اپنی جائز شکایت کے ازالے کے لئے بھی تھانے کا رخ نہیں کرتا جہاں وردیاں تو تبدیل ہو گئی ہیں لیکن تھانہ کلچر نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں