اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نواز شریف کی پاناما فیصلے کیخلاف درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیاہے، 23 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس اعجاز افضل خان کا تحریر کردہ ہے۔ فیصلے کے مطابق سابق وزیراعظم جان بوجھ کر اثاثے چھپانے کے مرتکب قرار پائے، نواز شریف کی نااہلی سے متعلق حقائق غیر متنازع تھے، نیب، آئی بی، اسٹیٹ بینک، نیشنل بینک میں اعلیٰ ترین شخصیت کے ہمدرد بیٹھے ہیں، بیان حلفی میں جھوٹ اور بددیانتی پائی جاتی ہے، مریم نواز بالواسطہ لندن فلیٹس سے مستفید ہونے والی مالک ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے مالی بے ضابطگیوں سے متعلق پاناما کیس کے فیصلے کے خلاف درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم، حسین، حسن نواز، کیپٹن صفدر اور اسحاق ڈار کیخلاف مالی بے ضابطگیوں کے الزامات کی تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا۔
نواز شریف کی پاناما فیصلے کیخلاف درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا، 23 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس اعجاز افضل خان نے تحریر کیا، فیصلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے۔جسٹس کھوسہ نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ درخواست گزاروں کے وکلاء کی جانب سے میرے انفرادی فیصلے کیخلاف کوئی دلائل نہیں دیئے گئے، پاناما فیصلے میں میری آبزرویشن پر کوئی سوال بھی نہیں اٹھایا گیا، بینچ ارکان کو فیصلے پر نظرثانی کیلئے قائل نہیں کیا جاسکا۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق وکلاء عدالتی فیصلے میں غلطیوں کی نشاندہی نہیں کر سکے، فیصلے میں تبدیلی کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، نگراں جج کا تقرر ٹرائل پر اثر انداز نہیں ہوگا، یہ سب کچھ ٹرائل کو شفاف بنانے کیلئے کیا گیا، ٹرائل کورٹ آزادی سے شواہد کی روشنی میں کسی آبزرویشن سے متاثر ہوئے بغیر فیصلہ کرے، شواہد کمزور ہوں تو ٹرائل کورٹ مسترد کرسکتی ہے۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے فیصلے میں ایف زیڈ ای کی تحقیقات کا کہا، تحقیقاتی نوعیت کی سماعت درخواست گزاروں کیلئے حیران کن نہیں تھی، نواز شریف کی نااہلی تسلیم شدہ حقائق پر کی گئی، سابق وزیراعظم جان بوجھ کر اثاثے چھپانے کے مرتکب قرار پائے، اثاثے چھپانے کو غلطی تسلیم نہیں کیا جاسکتا، نواز شریف کی نااہلی سے متعلق حقائق غیر متنازع تھے، یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ فیصلے سے نواز شریف کو حیران کردیا گیا۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق مریم نواز بادی النظر میں لندن فلیٹس کی بینیفشل مالک ہیں، یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ لندن فلیٹ سے کیپٹن صفدر کا کوئی تعلق نہیں، ٹرائل کورٹ سپریم کورٹ کی آبزرویشنز کی پابند نہیں، نیب، آئی بی، اسٹیٹ بینک، نیشنل بینک میں اعلیٰ ترین شخصیت کے حواری بیٹھے ہیں، عدالت نہیں چاہتی کہ معاملہ کسی کے حواریوں کے پاس جائے۔
عدالت عظمیٰ مزید کہتی ہے کہ بیان حلفی میں جھوٹ اور بددیانتی ہے، ساڑھے 6 سال کی تنخواہ قابل وصول اثاثہ ہے جسے ظاہر نہیں کیا گیا، تنخواہ ملازمت کے معاہدے کا حصہ ہے، اس کا اثاثہ ہونا ثابت ہے
Load/Hide Comments