ذہین طلباء کیسے ہوتے ہیں؟ —ارشد فاروق بٹ

’’ان کا آئی کیو لیول بہت زیادہ ہوتا ہے۔یا ان میں کوئی خاص جینز ہوتے ہیں جو انہیں ذہین و فطین بنا دیتے ہیں۔‘‘
یہ وہ جملے ہیں جو ذہین طلباء کے لیے دیگر طلباء سوچتے ہیں۔ کسی بھی سکول میں پوزیشن لینے والے طالب علم کو دیگر طلبارشک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ وہ حیران رہتے ہیں کہ ان کے اتنے مارکس کیسے آ جاتے ہیں۔ سب کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی طرح نمبر لیں۔
لیکن یہ ذہین طلباء کی مثبت سوچ ہوتی ہے جو انہیں راستے سے بھٹکنے نہیں دیتی۔ کامیابی کے لیے وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے رہتے ہیں اور منزل پر نظریں جمائے رکھتے ہیں۔ دیگر طلباء بھی اگر ان کی کچھ عادات کو اپنا لیں تو کامیابی ان کا یقینا مقدر ہو گی۔ یہاں ذہین طلباء کے چند معمولات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو ہر طالب علم کے لیے مشعل راہ ہے۔
1۔ تعلیم کے لیے خود کو وقف کر دیں۔
بہت سے طلباء اس بات سے ناواقف ہوتے ہیں کہ اصل میں وہ سکول میں کیوں جاتے ہیں۔ زندگی جب ہوش سنبھالتی ہے تو بچہ اپنے آپ کو ایک ناپسندیدہ معمول میں گرفتار پاتا ہے اور وہ ہے سکول۔ ذہین طلباء اس بات کا ادراک جلد کر لیتے ہیں کہ وہ سکول کیوں جا رہے ہیں۔ لہذا وہ اپنے آپ کو تعلیم کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ وہ تعلیم کے لیے صرف استاد پر انحصار نہیں کرتے بلکہ ہر ذریعے سے اپنے آپ کو اپڈیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
2۔ تحریک کا ماخذ خود بنیں۔
ذہین طلباء زندگی میں تحریک کے لیے کسی معجزے کے انتظار میں نہیں رہتے۔ وہ اپنی تحریک خود بنتے ہیں۔ جب وہ کسی کام کو کرنے کا ٹھان لیں تو پھرکل کا انتظار نہیں کرتے بلکہ اسی وقت اس کا آغاز کر دیتے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ ایسے طلباء عید جیسے خوشی کے موقع پر بھی کسی کونے میں بیٹھے پڑھ رہے ہوں گے۔لوگ ایسے طلباء کو کتابی کیڑا یا پڑھاکو جیسے القابات سے نوازتے ہیں لیکن وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔
3۔ تبدیلیوں کو قبول کریں۔
بچپن میں اپنے گردو پیش سے جذباتی لگاؤ بچوں کو تبدیلی قبول کرنے سے روکتا ہے۔ سکول کی تبدیلی، گاؤں سے شہر منتقلی، دوست کا بچھڑ جانا یا پسندیدہ استاد کا چلے جانا وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو بچوں کو حساس بنا دیتے ہیں اور وہ نئے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ لیکن ذہین طلباء اپنے گردوپیش ہونے والی تبدیلیوں کو قبول کرتے ہیں اور نئے منظرنامے میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔
4۔ علم کا عملی زندگی میں اطلاق
علم محض کتا ب رٹ لینے کا نام نہیں۔ سیکھے ہوئے علم کا عملی زندگی میں اطلاق موثر سمجھ بوجھ کے لیے ضروری ہے۔ کیا آپ سالہا سال سے ریاضی پڑھ رہے ہیں اور کبھی کسی کمرے یا میدان کی پیمائش کی؟ یا آپ دس سال سے انگریزی پڑھ رہے ہیں اور کبھی انگریزی اخبار پڑھنے کی کوشش کی؟ یا انگریزی میں خبریں سنیں یا انگریزی بولنے کی مشق کی؟ اگر نہیں تو یہ سب کب کریں گے؟
5۔ اپنے نوٹس بنائیں۔
اگرچہ کتابوں میں ہر مضمون سے متعلق تفصیلا مواد موجود ہوتا ہے لیکن بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ سیکھے ہوئے علم کے نوٹس بنائیں اور انٹرنیٹ سے مزید مواد اس میں شامل کریں۔ ان کو ترتیب سے رکھیں تاکہ جب کبھی کسی بھی شعبے سے متعلق معلومات درکار ہوں تو وہ نوٹس استعمال میں لائے جا سکیں۔
6۔ کمرہ جماعت میں اگلی نشستوں پر بیٹھیں۔
وہ طلباء جو اگلی نشستوں پر بیٹھتے ہیں انہیں سیکھنے کے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں۔ آخری نشستوں پر بیٹھنے والوں کے بارے میں اساتذہ میں عمومی تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ وہ تعلیم سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ نکمے طلباء آخری نشستوں پر بیٹھنا پسند کرتے ہیں اور وہ اپنے ساتھ ساتھ اچھے طلباء کی عادات بھی خراب کر دیتے ہیں۔
7۔ اپنی شخصیت کو پہچانیں۔
ہر انسان کو قدرت نے بے پناہ خوبیوں سے نوازا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر انسان کی کچھ خامیاں بھی ہوتی ہیں۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں کا ادراک منزل پر پہنچنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اپنی خوبیوں سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی خامیوں کے راستے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔
8۔ کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔
ذہین طلباء کامیابی کے لیے اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ وہ ناکام طلباء کی طرح نقل یا اسی طرح کے حربے استعمال نہیں کرتے۔ وہ جانتے ہیں کہ کامیابی مستقل مزاجی، سخت محنت اور لگن سے ملتی ہے۔ناکامی بھی ان کو اپنی منزل سے متنفر نہیں کرتی۔ کامیابی کے لیے شارٹ کٹ ڈھونڈنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
9۔ بری صحبت سے دور رہیں۔
برے دوست دیمک کی طرح ہوتے ہیں جو آپکے مستقبل کے ہرے بھرے درخت کو کھوکھلاکر دیتے ہیں۔ ان سے دور رہیں۔ آپ فیصلہ کر لیں کہ آپ کو اپنا مستقبل عزیز ہے یا دوست ۔
10۔ اپنی صحت کا خیال رکھیں۔
کہا جاتا ہے کہ صحت مند دماغ صحت مند جسم کے اندر ہوتا ہے۔ ورزش کریں یا کچھ وقت کھیل کود کے لیے نکالیں۔ آٹھ گھنٹے کی نیند بہت ضروری ہے۔ پڑھائی، کھیل اور سونے کے لیے ٹائم ٹیبل بنائیں اور اس پر عمل کریں۔
باادب بانصیب، بے ادب بے نصیب۔ یہ قول تا قیامت مستند رہے گا۔ ذہین طلباء اپنے اساتذہ، والدین اور بڑوں کا احترام کرتے ہیں۔ تربیت کا اثر ان کی شخصیت سے جھلکتا ہے۔ مندرجہ بالا اوصاف اگر آج کا طالب علم اپنے اندر پیدا کر لے تو یقینا کامیابی اس کا مقدر ہو گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں