ارشد فاروق بٹ چیچہ وطنی کے ابھرتے ہوئے ہوئے کالم نگار، صحافی اور معلم ہیں. سیاسی اور سماجی موضوعات پر موثر انداز میں لکھتے ہیں. زیر نظر کالم انھوں نے خصوصی طور پر ساہیوال اپ ڈیٹس کے لیے تحریر کیا ہے.
وفاقی وزیر برائے کھیل و بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیر زادہ نے نیشنل پریس کلب میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ پارٹی کو ٹیک اوور کر لیں۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر پارلیمنٹ نے معاملات طے نہ کیے تو عدلیہ اور فوج کو کچھ کرنا پڑے گا۔انہوں نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کو اجازت ہونی چاہیے کہ اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق ووٹ ڈالیں جبکہ آئین کی یہ شق اس میں رکاوٹ ہے۔
ریاض حسین پیرزادہ کی پریس کانفرنس کے بعد مسلم لیگ ن میں دھڑے بازی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ وزراء کبھی بھی از خود دھواں دار پریس کانفرنس نہیں کرتے ۔ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مصداق انہیں ہمیشہ لانچ کیا جاتا ہےتاکہ دوسرے فریق تک پیغام پہنچ جائے۔ جیسا کہ نہال ہاشمی کی تقریر کو بھی جج صاحبان نے کسی اور کی زبان قرار دیا تھا۔
وفاقی وزیر کی بیان بازی کے بعد مسلم لیگ کے دونوں دھڑوں میں خفیہ جنگ جاری ہے۔ پنجاب حکومت کے ترجمان ملک احمد خان نے ریاض پیرزادہ کے بیان کو قابل عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف نے ہمیشہ اپنے بڑے بھائی اور پارٹی کی خدمت کی ہے۔ مسلم لیگ ن کی صدارت کا تاج پہننے کے بعد بھی وہ اس عمل کو جاری رکھیں گے۔ انہوں نے خطرہ ظاہر کیا کہ اگر مسلم لیگ ن ، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان محاذ آرائی جاری رہی توسیاسی عمل خطرے میں پڑ جائے گا اور غیر آئینی اقدامات کی راہ ہموار ہو گی۔
مسلم لیگ کا دوسرا دھڑا اداروں سے محاذ آرائی کا حامی ہے۔ ان کے ریاض پیرزادہ کے لیے جذبات ٹویٹر پیغامات کے ذریعے دیکھے جا سکتے ہیں۔جو اس بات کے عکاس ہیں کہ دونوں دھڑوں کے درمیان سب اچھا نہیں ہے۔ ایک کارکن نے ٹویٹ کیا کہ:
“نوے کی دہائی میں ریاض پیرزادہ والی پریس کانفرنس30 ایم این ایز مل کر کرتے تھے۔ اب یہ وقت آ گیا ہے کہ دوسرا بندہ بھی نہیں ملا۔”
ایک اور لیگی کارکن نے لکھا:
“ان حالات میں پنجاب میں جو لیگی نوازشریف کے خلاف جائے گا زیرو ہو جائے گا۔جمہوری و غیر جمہوری قوتوں کی آخری کشتی شروع ہو گئی ہے۔”
دونوں کارکنان کے ٹویٹس کو مریم نواز نے لائک سے نوازا۔
سابق وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف اپنے بچوں ، داماد اور سمدھی سمیت احتساب کے شکنجے میں پھنس گئے ہیں۔ مقدمات سے خلاصی کی صورت اگلے چار پانچ سال نظر نہیں آتی۔ توقع یہی ہے کہ زرداری کے کیسز کی طرح یہ مقدمات بھی لمبے عرصے تک چلیں گے۔مقدمات کے شروع میں انہیں یقین تھا کہ عدالتوں کو ڈرا دھمکا کر فیصلہ حق میں کروا لیا جائے گا اسی لیے جے آئی ٹی کی تشکیل کے وقت مٹھائیاں بھی بانٹی گئیں۔
میاں صاحب کی حتی الامکان کوشش ہے کہ پارٹی قلمدان اپنے پاس ہی رکھا جائے یا کم از کم اپنی فیملی کےکسی فرد کو دیا جائے تاکہ پارٹی پر ان کی گرفت برقرار رہے۔ پارٹی صدارت کے حصول کے لیے متنازعہ قانون بھی فوری طور پر منظور کرایا گیا۔لیکن میاں صاحب اس حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں کہ آئینی و قانونی لحاظ سے ان کے پاس حق حکمرانی نہیں رہا۔وہ جانتے ہیں کہ زیادہ دیر یہ “سٹیٹس کو “برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔
کسی مسئلے سے عوامی توجہ ہٹانی ہو تو اس کا آسان ترین حل یہ ہے کہ کوئی اور مسئلہ کھڑا کر دیا جائے۔ ختم نبوت ترمیم، کیپٹن صفدر کی تقریر اسی پریکٹس کا حصہ تھی۔ لیکن یہ تمام حربے وقتی ریلیف ثابت ہوئے اور مسئلہ جوں کا توں برقرار رہا۔اب صورتحال یہ ہے کہ میاں صاحب نے اگر پارٹی قلمدان اپنے پاس رکھنا ہے تو صرف بیگم کلثوم نواز بچتی ہیں جو کہ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہیں۔
دوسری طرف شہباز شریف اور انکی فیملی ابھی تک اپوزیشن کے عتاب سے بچے ہوئے ہیں۔ بظاہر اپوزیشن کی توپوں کا رخ صرف نوازشریف اور انکی فیملی کی طرف ہے۔ لیکن قوی امکان ہے کہ اگر شہباز شریف کو پی ایم ایل ان کا قلمدان دینے کی کوشش کی گئی تو اپوزیشن ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کرے گی۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے شہباز شریف اپوزیشن کی نظروں میں ہیں۔ وہ اگر پارٹی کا قلمدان سنبھالتے ہیں تو زیادہ دیر احتسابی عمل سے بچ نہیں پائیں گے۔
حمزہ شہباز شریف اس ساری صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ وہ اداروں کے ساتھ محاذآرائی کے حامی نہیں اور معاملات کو خراب ہونے سے قبل انہیں افہام و تفہیم سے ٹھیک کرنے کے حامی ہیں۔
بظاہر نظر یہی آتا ہے کہ مسلم لیگ ن کا قلمدان بیگم کلثوم نواز یا حمزہ شہباز کے حصے میں آئے گا۔ اور باقی کردار زرداری کی طرح شریک چیئر مین جیسے عہدے پیدا کر کے پارٹی پر اپنی گرفت برقرار رکھیں گے۔ فی الحال مسلم لیگ ن کی بقاء اسی میں ہے کہ اداروں کے ساتھ محاذ آرائی سے بچا جائے۔لیکن اگر کوئی سیاسی شہادت چاہتا ہو تو اس خودکش حملہ آور کو کون روک سکتا ہے۔