( سمیرا انور، جھنگ سے تعلق رکھنے والی بچوں کی ابھرتی ہوئی نو عمر مصنفہ ہیں. بچوں کے لیے تواتر سے لکھ رہی ہیں)
یہ بہت پرانی کہانی ہے۔ کسی جنگل میں ایک درخت پر سانولی سلونی اور سرمئی چڑیا اپنے دو ننھے بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔ ان میں سے ایک کو وہ پیار سے سومو اور دوسرے کو بھولو کہتی تھی۔ سومو بہت شرارتی اور سیر وتفریح کا شوقین تھا، مگر بھولو اس سے مختلف طبیعت کا مالک تھا۔ وہ اچھل کود سے دور رہتا تھا اور اپنی ماں کی ہربات کو ماننا اپنا فرض سمجھتاتھا۔ سومو نے اپنی نافرمانی کی وجہ سے کئی بار اپنی ماں سے ڈانٹ بھی کھائی تھی مگر اس پر کسی بات کا اثر نہ ہوتا تھا۔ سرمئی چڑیا اسے سمجھاتی کہ دور مت جایا کرو کوئی شکاری پکڑلے گا لیکن وہ سنی ان سنی کرکے پھر سے گھومنے چلا جاتا اور شام تک واپس گھر لوٹتا۔ ایک دو بار تو بھولو اور اماں خود اسے ڈھونڈ کر لائے تھے۔
ایک روز چڑیا اپنی کسی سہیلی کی شادی پر جانے کے لیے تیار ہوئی تو اس نے ان دونوں کو بھی ساتھ چلنے کے لیے کہا، مگر ہر بار کی طرح سومو نے جانے سے انکار کردیا۔ پھر اس کی ضد کی وجہ سے بھولو کو بھی چڑیا نے اس کے پاس چھوڑدیا اور تاکید کی کہ ایک دوسرے کا خیال رکھنا، میں جلدی واپس آجائوں گی۔ بھولو نے اپنی اماں کی بات غور سے سنی، مگر سومو نے بے دلی سے سر ہلایا۔
چڑیا کے جانے کے بعد سومو بے چینی سے اچھلنے لگا اور اس نے اپنے دوست گولو کو بلایا جو کچھ ہی دور ایک درخت پر رہتا تھا۔ سرمئی چڑیا کی موجودگی میں تو گولو اس کے پاس پھٹک بھی نہیں سکتا، کیوںکہ وہ سرمئی چڑیا کے ہاں خاص طور پر بھولو کو پسند نہیں تھا۔ اسے دیکھ کر بھولو نے برا سا منہ بنایا، کیوںکہ وہی اس کے بھائی سومو کو بگاڑتا تھا۔
نت نئی شرارتیں سکھاتا اور اسے دور باغات میں جانے کے لیے اُکساتا تھا اور سومو بھی تو اسی کے گُن گاتا تھا۔ اس کو اپنی ماں اور بھائی کی نصیحتیں بالکل اچھی نہیں لگتی تھیں۔ اس کے آتے ہی دونوں نے ایک دوسرے سے کھسر پھسر شروع کردی۔
گولو کہہ رہا تھا:’’سومو! ہمارے اس جنگل میں شمال کی طرف پھلوں سے لدا ایک باغ ہے جس بارے میں ابھی کسی کو کچھ پتا نہیں ہے، ہمیں وہاں چلنا چاہیے۔‘‘
’’ تو پھر ابھی چلتے ہیں، دیر کس بات کی؟‘‘ سومو تو پہلے ہی جانے کے لیے تیار تھا۔
یہ سن کر بھولو نے اس سے کہا:’’سومو! کہاں جارہے ہو؟ اماں نے منع کیا تھا باہر جانے سے!‘‘
سومو نے کہا:’’ابھی کچھ دیر میں آجائیںگے۔ تم فکر نہ کرو، اماں کے آنے سے پہلے ہم گھر میں ہوںگے۔ کیوں گولو؟‘‘ سومو نے سرگھماکر اس کی تائید چاہی تو گولو نے سر ہلایا اور دونوں درخت سے اُڑ گے۔ بھولو نے بے چارگی سے اس طرف دیکھتا رہا جس طرف وہ گئے تھے۔
جنگل سے باہر نکل کر سومو اور گولو نے شمال کا رخ کیا۔ راستہ بہت طویل تھا۔ انھیں وہاں پہنچتے پہنچے شام ہوگئی۔ باغ میں طرح طرح کے پھل دیکھ کر ان کے منہ میں پانی بھر آیا۔ گولو نے سومو سے کہا:’’اب واپس چلتے ہیں۔‘‘ لیکن وہ نہ مانا اور پھل کھانے میں لگا رہا۔
جب کافی رات ہوگئی تو دونوں واپس روانہ ہوئے، مگر اب اندھیرا پھیل ہوچکا تھا۔ گولو آگے تھا اور سومو اس کے پیچھے، دونوں آہستہ آہستہ اڑ رہے تھے۔ قریبی پہاڑ سے جنگلی درندوں کی عجیب و غریب آوازیں آرہی تھیں۔
’’مجھے لگتا ہے ہم راستہ بھول گئے ہیں۔‘‘ گولو نے پریشان لہجے میں کہا۔
’’اب کیا ہوگا گولو؟ ہم کدھر جائیںگے؟‘‘ سومو نے روتے ہوئے کہا۔ اتنے میں ایک شکاری عقاب نے جھپٹا مارا اور گولو کو لقمہ بنالیا۔ یہ دیکھ کر سومو جلدی سے ایک شاخ میں چھپ گیا۔ اب اسے اپنی اماں اور گھر کی بے تحاشا یاد آئی۔ اسے اپنی تمام نافرمانی پر دکھ ہوا، لیکن وہ کیا کرتا، اپنے گھر کیسے پہنچتا۔
اسی طرح صبح ہوگئی۔ وہ سارا دن اپنے گھر کے راستے کو تلاش کرتا رہا مگر ناکام رہا۔ اسی طرح کئی دن گزر گئے لیکن وہ گھر نہ پہنچ سکا۔ ایک روز اسے اپنے جنگل کا ایک دوست مل گیا تو اس نے دوست سے کہا:’’میں راستہ بھٹک چکا ہوں، تم مجھے میرے گھر پہنچادو، تمہاری بہت مہربانی ہوگی۔‘‘ سومو کے دکھ بھرے انداز پر اس دوست کو اس پر ترس آگیا اور وہ اسے جنگل لے گیا۔
اپنے جنگل پہنچ کر وہ خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ وہ اپنے دوست کا شکریہ ادا کرکے جلدی سے اپنے گھر پہنچا تو دیکھا کہ وہاں صرف بھولو اداس اور تنہا بیٹھا تھا۔ اسے دیکھ کر سومو عجیب سی محبت محسوس ہوئی جو پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ جیسے ہی بھولو نے سومو کو دیکھا تو بہت حیران ہوا، مگر پھر زور زور سے رونے لگا۔ وہ کہہ رہا تھا:’’سومو! تم نے بہت دیر کردی آنے میں! اماں تمہاری یاد میں رو رو کر اس دنیا سے چلی گئیں۔
ان سے تمہاری جدائی برداشت نہ ہوئی۔ آخری لمحے بھی وہ تمہیں ہی یاد کر رہی تھیں۔‘‘
یہ خبر سن کر سومو کی حالت غیر ہوگئی۔ وہ تو ابھی اپنی اماں سے معافی مانگنے والا تھا اور یہ عہد کرنے والا تھا کہ اب کبھی ان کی نافرمانی نہیں کرے گا۔ مگر وقت اس کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ اپنی اماں کو یاد کرتے ہوئے سومو زور زور سے رونے لگا، لیکن اب اس کی آواز سننے والا کوئی نہ تھا۔ ایک پچھتاوا ہی ساری عمر کے لیے رہ گیا تھا۔