ختم نبوت کی شق میں الفاظ کا ہیر پھیر…حقائق جانیے

ساہیوال(خاص رپورٹ) نئے منظور ہونے والے انتخابی اصلاحات کے بل پر کل سے سیاسی جماعتوں اور سماجی میڈیا پر سیاسی کارکنوں کے مابین ہونے والی بحث اور اٹھائے جانے والے سوالات ؟؟؟ یہ وہ امور ہیں جن سے پردہ اٹھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ قومی اسمبلی نے کل جو انتخابی اصلاحاتی بل منظور کیا ہے اس کے تحت پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کروانے والے فارم میں عقیدہ ختم نبوت پرآئین میں پہلے سےموجود “قسم کھانے” کے الفاظ کو ختم کرکے اقرار میں بدل دیا گیا ہے۔یہ صرف الفاظ کا ہیر پھیر نہیں بلکہ حقائق کی نگاہ سے دیکھا جائے اس لفظی تبدیلی نے قادیانیوں اور احمدیوں کے لیے براہ راست الیکشن لڑنے کی راہ ہموار کر دی ہے۔ قبل ازیں “میں صدق دل سے قسم کھاتا ہوں” کےا لفاظ ایک باقاعدہ حلف نامہ کی عکاسی کرتے تھے

جب کہ اب “یقین رکھتا ” ہوں کے الفاظ میں کافی لچک موجود ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ ملک بھر میں بسنے والے قادیانی عمومی زندگی میں ختم نبوت” کا اقرار تو کر لیتے ہیں مگر بالخصوص قسم کھانا پڑے تو وہ آیات مبارکہ کے مختلف تراجم پیش کر کے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔


یہ امر قابل غور اور قابل فکر ہے کہ حکومت نے الفاظ کے ہیر پھیر سے قادیانیوں کے بطور مسلم کہلوا کر الیکشن لڑنے کی راہیں ہموار کر دی ہیں۔ بعض لوگ اس شق کے الفاظ میں ترمیم کو بھی ایک معاہدہ قرار دے رہے ہیں جو ملک کے چند طاقت ور اداروں میں موجود خاص لوگوں اور حکمرانوں کے مابین ایک خاص طبقے کے لیے نرمی پیدا کر نے کے لیے کیا گیا ہے جس کے بعد حکومت کی راہ میں آنے والی رکاوٹیں یکے بعد دیگرے دور کی جائیں گی۔ سوشل میڈیا پر حکومت کے اس اقدام کی بھرپور مذمت جاری ہے اور شیخ رشید اسمبلی میں اس ضمن میں اپنے خیالات کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں